Orhan

Add To collaction

موسم موحببت اور تم

شہریار نے گہری سانس لے کر ڈائری مقررہ جگہ پر رکھ دی تھی۔۔۔ اگلے پانچ منٹ میں وہ کھانا لے آئی تھی۔۔۔۔ وہ چپ سا چھوٹے سے نوالے لیتا رغبت سے کھانا کھا رہا تھا۔۔۔ عقیدت نے خوش ہو کراس کے پر سکون چہرے کو دیکھا تھا ۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی گرل کے پاس جا کھڑی ہوئی تھی۔۔۔ چاند سفیدے کے چھدرے پتوں کی راج دھانی سے سرک کر اب آسمان کے وسط میں آن ٹھہرا تھا۔

وہ چاند کی طرف ہی نظریں ٹکاۓ کھڑی تھی۔

"کل چاول' سبزیاں اور فروٹ جلدی دے جائیے گا پھر آپ بعد میں اکیڈمی پڑھانے چلے جائیے گا ۔۔۔" وہ چونکا تھا۔

" خیر تو ہے۔۔۔؟" ہوا چنبیلی کی مہک سے بھری گھوم رہی تھی۔۔۔ وہ اب پانی پی رہا تھا۔۔۔ عقیدت بولی تھی۔

" کل جمعرات ہے ناں۔۔۔۔چاچا' چچیاور امی' ابو کے ایصال ثواب کے لیے محلے کے بچوں کے لیے کھانا پکاؤں گی۔۔۔۔" شہریار نے سر ہلا دیا تھا۔ یہ وہ معمول تھا جو وہ جانے کب سے دہرا رہی تھی۔

" تمہارے لیے کچھ نہیں لانا کیا؟" وہ اپنے فرض میں کبھی بھی کوتاہی نہیں کرتا تھا اور یہ بات وہ اچھی طرح جانتی تھی۔۔۔۔

" نہیں میرے پاس سب کچھ ہے۔" وہ اطم" ینان سے کہتی ہوئی واپس مڑی تھی اور برتن اٹھاتی سیڑھیاں اتر گئی تھی۔۔۔۔ انگوروں کی بیل جگنو قطار در قطار لٹکے ہوۓ تھے۔ وہ چند ثانیے انہیں دیکھتا رہا تھا۔ کوٹ کے سائیڈ والی پاکٹ سے پین نکالا اور ڈائری اٹھا لی تھی ۔۔۔۔ اب وہ عقیدت کی لکھی ہوئی عبارت کے سامنے چھوڑی گئی جگہ پر کر رہا تھا۔۔۔ موتیوں کی سی خوب صورت لکھائی ڈائری کے اوراق پر جیسے سج گئی تھی۔

" زندگی میں بہت بار ہم یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ہمارے پاس کوئی نہ کوئی سہارا ضرور ہوتا ہے۔۔۔۔ تمہیں لگتا ہے کہ تم تنہا ہو۔۔۔ اور تمہاری گلوں' موسموں' بہاروں کی داستانیں سننے والا کوئی نہیں۔۔۔ تم غلط ہو عقیدت ۔۔۔ اپنے وجود کے گرد چڑھے خول کو توڑو اور پھر دیکھو ۔ تمہارے پاس " وہ" ہے جو کسی کے پاس نہیں۔۔۔۔ تمہارے پاس ' تمہاری دسترس میں انار کلی جیسا رنگ عشق ہے۔۔۔ وہ رنگ جو مٹتا نہیں ۔۔۔ جاوداں ہے۔" رات کی سلوٹ پر دراڑیں پڑنے لگیں تھیں ۔۔۔۔ فجر رات کے چوکھٹے پر سر نیہواڑے کھڑی تھی۔

" اپنے بھائی اور بھابی کی ناگہانی موت کے بعد اکرام علی اپنی بھتیجی کو اپنے گھر لے آۓ تھے۔۔۔ تقریبا دو سال بعد ان کی اہلیہ بھی وفات پا گئی تھیں۔۔۔۔ پھر اپنے بیٹے شہریار اور عقیدت کو انہوں نے ہی پالا تھا۔۔۔ جانے کیوں ہمیشہ شہریار اور عقیدت میں فاصلہ ہی رہا تھا۔۔۔جیسے جیسے عقیدت بڑی ہوتی گئی۔۔۔۔ سمجھدار ہوتی گئی۔۔۔۔ گھر داری اس نے پڑوسن خالہ سے سیکھ لی تھی' پھر وقت گزرتا گیا اور وہ ہر کام بخوبی سر انجام دیتی رہی۔۔۔۔ پڑ ھائی سے لے کر گھر داری تک وہ ماہر تھی۔۔۔ اس کی اور شہریار کی عمر میں سات برس کا فاصلہ تھا۔۔۔ شاید یہ اتنی عمر نہیں تھی کہ فاصلہ رکھا جاتا مگر جانے کیوں وہ دونوں کبھی ایک دوسرے کو سمجھ ہی نہ سکے۔

کبھی کبھی بس براۓ نام ہی بات ہوتی تھی۔۔۔ سنجیدگی کے بھاری خول نے انہیں دور کر دیا تھا۔

   2
1 Comments

Farhana ۔۔۔

14-Dec-2021 02:32 PM

Good

Reply